245

اسوۃ رسول ؐاور امت مسلمہ کی موجودہ صورتحال

مولانا محمد اسرار الحق/جناب نبی اکرم ؐ کی سیرت طیبہ قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے اسوۃ حسنہ ہے اور ہر دور میں نسلِ انسانی اس سے راہنمائی حاصل کرتی ہے۔ آج بھی نسل انسانی اور خاص طور پر امتِ مسلمہ کے لیے یہی راہ نمائی فلاح و نجات کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔امتِ مسلمہ اس وقت جن مسائل میں الجھی ہوئی ہے ان کی فہرست بہت طویل ہے اور انہیں صرف شمار کیا جائے تو اس کے لیے خاصا وقت درکار ہے‘ لیکن ان میں سے چند بڑے بڑے مسائل کا ذکر مناسب سمجھتا ہوں تاکہ یہ بات ہمارے ذہنوں میں تازہ ہو جائے کہ ہمیں اسوۃ نبویؐ سے کیسے راہنمائی حاصل کرنی ہے۔ جناب نبیؐنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بہت سی باتیں نسل انسانی اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے لیے فرمائی تھیں‘ ان میں سے دو باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ
”کل امر الجاھلیۃ موضوع تحت قدمی”
جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ یعنی نسل انسانی کو جاہلیت کے دور سے نکال کر علم اور روشنی کی طرف لے جارہا ہوں اور اس کے ساتھ ایک جاہلی قدر یعنی باہمی قتل و قتال کا ذکر کر کے فرمایا کہ
”لا ترجعوا بعدی ضلالا”
میرے بعد پھر گمراہی کے دور کی طرف واپس نہ چلے جانا۔ہمیں آج اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ جن جاہلی اقدار کو نبی اکرمؐ نے پاؤں تلے روند کر علم اور روشنی پر مبنی سوسائٹی قائم کی تھی وہ جاہلی اقدار کہیں پھر تو ہمارے معاشرے میں واپس نہیں آگئیں؟ آج ہمارا حال یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ؐکا تذکرہ محبت اور عقیدت کے ساتھ تو کرتے ہیں اور ان کے مبارک تذکرے سے ثواب اور برکات بھی حاصل کرتے ہیں لیکن راہنمائی کے لیے اوروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ عقیدت و محبت اور ثواب و برکات کے ساتھ ساتھ راہنمائی کے لیے بھی جناب نبی اکرمؐ کی طرف رجوع کریں اور ان جاہلی اقدار سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں جو آج پھر سے ہماری سوسائٹی میں عام ہوگئی ہیں، اور اس معاشرہ کے احیاء کے لیے محنت کریں جو جناب نبی اکرمؐ نے تئیس سال کی محنت سے قائم کر کے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کیا تھا۔بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم ؐنے فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہی کا شکار ہوئیں کہ ان کے ہاں قانون کا نفاذ سب پر یکساں نہیں ہوتا تھا‘ غریب آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی لیکن معاشرہ کے بڑے لوگ جرم کا ارتکاب کرتے تو وہ سزا سے بچ جاتے تھے۔ نبی اکرم ؐ نے اس صورت حال کو امتوں کی تباہی کا باعث قرار دیا ہے۔ جبکہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کوئی بڑا آدمی سنگین سے سنگین جرم بھی کرتا ہے تو اس کے لیے باقاعدہ گنجائشیں تلاش کی جاتی ہیں اور اسے سزا سے بچانے کے لیے پورا نظام متحرک ہو جاتا ہے۔جناب نبی اکرمؐنے دیانت و امانت کو مسلمان فرد اور امت کا فریضہ قرار دیتے ہوئے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ امانت اور دیانت جب دنیا سے ختم ہو جائے گی تو یہ قیامت کا پیش خیمہ ہوگا۔ بد دیانتی اور نا اہلی کی ایک صورت جناب نبی اکرمؐ نے یہ بھی بیان فرمائی کہ جب معاملات اور اختیارات نا اہل لوگوں کے سپرد ہونے لگیں گے تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے‘آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سب کرپشن، نا اہلی اور بد دیانتی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اسے فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔ عالم اسلام میں عمومی طور پر ہمارا حال یہ ہے کہ کرپشن اور بد دیانتی کا دور دورہ ہے اور لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کے غلط استعمال کے علاوہ تجارت اور کاروبار میں بھی ہماری ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ تجارتی دنیا میں ہماری ساکھ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور بین الاقوامی برادری میں ہمارا اعتماد کسی طرح بحال نہیں ہو رہا۔جس کے نتیجہ میں مہنگائی اور بیروزگاری کا عذاب نظر آ رہا ہے جناب نبی اکرمؐنے امت کو دشمن کے مقابلہ میں ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیا تھا اور جنگی قوت اس حد تک فراہم کرنے کا حکم دیا تھاکہ دشمن پر مسلمانوں کا رعب رہے‘یعنی دنیا میں جنگی طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے لیکن آج ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور جنگی اسباب میں باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اس لیے آج ہم سے اسوۃنبویؐ کا یہ تقاضا ہے کہ ہم راہنمائی کے اصل سرچشمہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کر کے دوسروں کی ذہنی غلامی سے نجات حاصل کریں، کرپشن اور نا اہلی کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کریں، قانون میں سب کے لیے یکساں برابری کا اہتمام کریں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کو اپنا ہدف قرار دیں اور جاہلیت کی ساری قدروں اور طور طریقوں کو پھر سے پاؤں تلے روندتے ہوئے صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے دور کی مسلم سوسائٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے محنت کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماد ے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں