اسلام آباد کچہری میں ہونے والا دلخراش خودکش حملہ جس میں درجن سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور کئی بے گناہ زخمی ہوئے، نہایت ہی افسوسناک اور قابل مذمت واقعہ ہے۔ اس حملے نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ ملک دشمن عناصر نہ صرف عام شہریوں بلکہ ہمارے عدالتی نظام اور ریاستی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ قوم میں خوف و انتشار پھیلا کر ریاستی رُوح کو کمزور کیا جا سکے۔ صورتحال کی سنگینی اور حملے کی فضا میں پیدا ہونے والا غم و غصّہ ہر پاکستانی کے دل میں بسا ہوا ہے۔ تفتیشی ادارے اور وفاقی حکام اس واقعے کے پسِ منظر اور ممکنہ بیرونی مداخلتوں کی پرت در پرت تحقیقات کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے بعض حلقوں کی طرف اشارہ بھی کیا ہے جو پاکستان کو اندرونی و بیرونی سطح پر کمزور کرنے کی کُوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے حقائق قومی بیداری اور بین الاقوامی سطح پر واضح موقف کی ضرورت کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ خارجی دشمن قوتوں کا تذکرہ اس لیے کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان نے بارہا ایسی اطلاعات، ثبوت اور عالمی فورمز پر شکایات پیش کی ہیں جن میں بعض پڑوسی ممالک یا پروکسی عناصر کی موجودگی اور مداخلت کا ذکر شامل رہا ہے۔ خطّہ میں غیر مستحکم فورموں اور پناہ گاہوں کا مطلب صرف ایک ریاست کے اندرونی معاملات میں خلل ہی نہیں، بلکہ یہ براہ راست ہماری سلامتی، معاشی ترقی اور عوامی اعتماد کو متاثر کرتا ہے۔ جب دشمن داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر ایک دوسرے کے ساتھ گھٹ جوڑ کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف متحدہ، جارحانہ اور شفاف حکمت عملی لازمی ہے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہماری افواج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ملکی تاریخ میں سنہری حروف سے درج ہیں۔ ناقابل فراموش بات یہ ہے کہ ان اداروں نے نہ صرف بڑے آپریشنل خطرات کا سامنا کیا بلکہ روزِ مرہ کے فرائض میں بھی بے مثال کار کردگی دکھا ئی ان شہداء کو صرف خراج تحسین کافی نہیں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکمتِ عملی کا ہر پہلو دوبارہ جانچا جانا چاہیے۔انٹیلی جنس شیئرنگ میں تیز رفتاری، آئیڈینٹیفکیشن اور ٹریکنگ کے جدید اوزار، بین الصوبائی و بین الاقوامی تعاون، بارڈر مینجمنٹ میں سختیاں اور معاشرتی سطح پر انتہا پسندی کے تدارک کے لیے تعلیمی، اقتصادی اور سماجی پروگرام لازم ہیں۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کے بعد فوری اور موثر عدالتی کارروائی کے قابلِ عمل راستے بھی میسر کرنے ہوں گے تا کہ قصوروار جلد انصاف کے دائرے میں آئیں اور معاشرہ اس سے سبق حاصل کرے۔ ملکی ہم آہنگی اور عوامی شعور بھی اس جنگ کا اہم ہتھیار ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر شک کریں، فرقہ واریت یا انتقامی ذہنیت کو فروغ دیں اور اپنے دفاعی ڈھانچے کو اندر سے کمزور کریں۔ ایسی صورتِ حال میں ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ امن و امان کے قیام میں حصہ لے، افواہوں اور نقصان دہ پروپیگینڈے سے پرہیز کرے اور ریاستی اداروں کو فعال معلومات فراہم کر کے ان کی معاونت کرے۔ عوامی ادارے، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی ذمہ دارانہ انداز میں خبر رسانی اور شعور اُبھارنے کا کام کرنا ہوگا۔ آخر کار، دہشتگردی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے صرف عسکری اقدام ہی کافی نہیں ایک جامع حکمتِ عملی درکار ہے جو خفیہ نیٹ ورکس کی کڑیوں کو توڑے، مالیاتی ذرائع کو روکے، محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے اور انتہا پسندی کے بنیادی محرکات کو ختم کرے۔ خطّے کے ممالک کے ساتھ سفارتی دباو، بین الاقوامی سطح پر ثبوت کے ساتھ معاملات کی نشاندہی اور شواہد کی بنیاد پر قانونی
کارروائیاں بھی اسی سمت میں ضروری اقدامات ہیں۔ ہمیں متحد رہ کر، واضح پالیسیوں اور مضبوط عزم کے ذریعے دہشتگردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ ہم اپنے شہداء کے اہلِ خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں، اُن کی قربانی کو قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی اور ہمیں یہ عہد بھی کرنا ہوگا کہ ہم اُن کی دی گئی قربانی کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ قومی یکجہتی، مضبوط ریاستی ادارے اور عوامی سچائی ہی وہ راستہ ہیں جو ہمیں اس طویل جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد دیں گے
راجہ طاہر