139

اسلام آباد میں ڈینگی نے خطرے کی گھنٹی بجادی،ڈینگی بخار کیسے پھیلتا ہے اور اسکی علامات کیا ہیں؟

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈینگی پنجے گاڑھنے لگا ،گزشتہ گھنٹوں میں صورتحال تشویشناک ہو گئی اسلام آباد میں اب تک چھ افراد ڈینگی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ماضی کی طرح بروقت انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ڈینگی روز بروز بڑھتا جارہا ہے ۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں اس وقت ڈینگی کیسز کی تعداد خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے انتظامیہ کو اب یاد آیا کہ ہم نے ڈینگی اسپرے بھی کرنا تھا اور نالوں اور کی صفائی کو بھی یقینی بنانا تھا اسلام آباد محکمہ ہیلتھ کی جانب سے جاری اعدادو شمار کے مطابق ڈینگی متاثرین کی تعداد 2072 تک پہنچ گئی ہے صرف گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے 81 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ضلعی ہیلتھ آفیسر کے مطابق شہری علاقوں میں 41 کیسزجبکہ دیہی علاقوں میں 40 کیس رپورٹ ہوئے اور دیہی علاقوں میں کیسز کی تعداد 1246 تک جا پہنچی ہے شہری علاقوں میں ڈینگی کیسز کی مجموعی تعداد 826 ہو گئی،اسلام آباد میں اب تک چھ افراد ڈینگی سے جاں بحق ہو چکے ہیں ۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں ہر سال ڈینگی سے متعدد افراد جان سے ہاتھ گنوا بیٹھتے ہیں حکومتی و انتظامی نا اہلی کے سبب قیمتی انسانی زندگیاں سنگین لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ڈینگی کے بڑھتے زور پر شہریوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے محکمہ صحت کی غفلت قرار دیتے ہوئے کہا ڈینگی پھیلنے کے بعد اپنائی جانے والی احتیاطی تدابیر اور عوامی آگاہی مہم اگر قبل از وقت شروع کی جاتی تو نتائج مختلف ہوتے مگر یہاں جب سانحہ جنم نہ لے حکومتی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ڈینگی ایک مخصوص مادہ مچھرکے کاٹنے سےہوتا ہے، متاثرہ شخص تیزبخار میں مبتلا ہوسکتا ہے، اس کے جسم میں درد ہوتا ہے اورسرخ دھبے بھی پڑسکتے ہیں ۔ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی کے مرض میں مبتلا 80 فیصد افراد کو اسپتال میں علاج کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کا علاج گھر پر ممکن ہے۔ڈینگی مچھر صبح روشنی ہونے سے پہلے اور شام میں اندھیرا ہونے سے دو گھنٹے قبل زیادہ متحرک ہوتا ہے، اس کی افزائش آگست سے اکتوبر کے مہینے کے دوران میں ہوتی ہے اور سرد موسم میں ڈینگی کی کی افزائش نسل رک جاتی ہے۔ڈینگی کا مرض مچھر کے ذریعے مریض سے کسی بھی دوسرے شخص کو منتقل ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مرض میں مبتلا مریضوں کے خون میں پلیٹیٹس کی تعداد 50 ہزار سے کم ہونے لگے تو وہ علاج کے لیے اسپتال جائیں ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں