833

استاد الشعراء حضرت احمد علی سائیں ایرانی پشوری

تحریر:واجد اقبال جنجوعہ

ادیب اور شاعر معاشرے کی اصلاح اور بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں شاعر اگر مثبت روش اختیار کریں تو اصلاحی معاشرہ قیام پذیر ہوتا ہے اگر منفی کردار ادا کریں تو معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے اس لیے ادباء و شعراء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بہترین افکار و نظریات کو آنیوالی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کریں۔ پوٹھوہار اور پوٹھوہاری تہذیب اپنی صدیوں پر محیط تاریخ رکھتی ہے لیکن یہ تاریخ کسی بھی دور میں مکمل طور پر قلم زد نہ ہو سکی جسکی وجہ سے آج کی نسل پوٹھوہار کی بیش بہا قیمتی تاریخ کے بہترین حوالوں سے ناآشنا بلکہ نابلد ہے۔پوٹھوہار کی میسر تاریخ میں ادبی حوالے سے جس شخصیت کو سرخیل رہنما اور اعلیٰ مقام و منزلت حاصل ہے اس شخصیت کا پوٹھوہاری ادبی تاریخ پر رنگ اتنا غالب اور گوڑھا ہے جس سے انکار کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے

اس ہمہ جہت شخصیت کا اسم گرامی قدر احمد علی اور تخلص سائیں اور سائیاں ہے۔ مختلف روایات میں تاریخ پیدائش میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے لیکن حضرت احمد علی سائیں ایرانی پشوری ؒ کے ہندکو شاگرد سید جگر کاظمی کے مطابق آپ 20 شعبان 1852ء بروز ہفتہ بوقت ظہر پشاور میں نور علی ایرانی کے گھر میں تولد ہوئے خاندانی پس منظر کچھ یوں ہے کہ آپ کا قبیلہ قزلباش شیراز ایران سے ہمایوں کے ساتھ براستہ افغانستان پشاور میں مقیم ہوا جبکہ عزیز واقارب کے مطابق آپ نسلاً مغلوں کی شاخ ہوت سے تعلق رکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ اپنے نام کے ساتھ پشوری اور ایرانی کا لاحقہ استعمال کرتے تھے بچپن ہی سے طبیعت فقر و درویشی کی پائی شعر و شاعری کا آغاز بچپن میں ہی شروع ہو گیا جو اوائل عمری میں ہی آپ نے استاد رمضان علی رمضو پشوری ؒ کی شاگری اختیار کر لی۔1897ء میں سائیں اپنے دوستوں کے ساتھ راولپنڈی گھومنے کے لیے تشریف لائے لیکن دوستوں کے ساتھ واپس نہیں گئے بلکہ 1902 ء تک راولپنڈی قیام پذیر رہے پانچ سال کے بعد آپ واپس پشاور گئے

جہاں آپ نے 1903 ء میں ہندکو سرزمین ادب کی پہلی ادبی تنظیم”بزمِ سخن” کی بنیاد رکھی جس کے زیر انتظام 1915ء تک وہاں ادب اور ادبی محافل کا انعقاد کیا جاتا رہا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا سائیں کی تشنگی باقی تھی یا سائیں سخن میں جو پذیرائی چاہتے یا ادبی ماحول چاہتے وہ میسر نہیں آ رہا تھا اس لیے 1915ء میں سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ نے راولپنڈی (پوٹھوہار) کا سفر کیا اور مستقل سکونت اختیار کی جو سولہ سال پر محیط ہے اور پوٹھوہاری ادب کی قسمت سائیں کے دم قدم سے اور سائیں کی ادبی شہرت راولپنڈی (پوٹھوہار) میں آنے اور قیام کرنے سے بام عروج تک پہنچی پوٹھوہار کا ادب اور حضرت سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔پوٹھوہار میں قیام کے دوران سائیں کے پاس پنجابی (یاد رہے کہ اس وقت پاکستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا پنجاب میں مشرقی پنجاب بھی شامل تھا) ہندکو اور پوٹھوہاری کے صف اول کے ادباء و شعراء نے زانوئے تلمذ تہہ کیا جن میں کچھ کا ذکر ضروری ہے

جیسے پنجابی زبان کے شہنشاہ غزل پیر فضل گجراتی ؒ‘ فخر ایشیا اللہ دتہ جوگی جہلمیؒ‘ فاتح قادیانیت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی ؒ‘ اللہ داد چنگی، مرزا عبدالکریم ہمسر، نذر حسین شاہ
مضطر، محمد خان زاکر، عنایت حسین اسیر، کیدار ناتھ سوز، منشی رجب علی جوہر،سائیں فیروز نگین گجراتی، پروفیسر موہن سنگھ ماہر، ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ،پریتم سنگھ سفیر، ایشر سنگھ ایربھائی یاد، درشن سنگھ آوارہ جہلمی،سائیں غلام نبی اختر، سائیں عزیز، ساقی نائی اور سرزمین ہندکو سے سید جگر کاظمی، مضمر تاتاری،استاد یونس، فارغ قادری،جعفر علی جعفری،استاد سیفی شاہ، استاد وحشی اور 1930 ء میں راولپنڈی سے پشاور جانے کے بعد آخری شاگرد جنابِ آغا محمد جوش پشوری شامل ہیں یہ وہ تلامذہ ہیں جنہیں میں نے سنا یا پڑھا ہے باقی ان کے علاوہ سیکڑوں ایسے ہیں جو یا تو گمنامی پسند تھے یا گمنام ہوگئے ہیں۔سائیں سرکار مکھا سنگھ سٹیٹ کے مالک سکھ سردار گورمکھ سنگھ کے گھوڑے کے ملازم فیروز کے حوالے سے گورمکھ سنگھ سے ملے اور ان کے مستقل مہمان ہو گئے آپ کے شاگردوں کا یہ عالم تھا کہ وہ اصلاح کے لیے چھ ماہ ایک سال اور کئی ایسے تھے جو کبھی گھر نہیں گئے یہ سائیں سرکار سے محبت کا عالم تھا سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ ہمیشہ اپنے شاگردان کے ہجوم میں رہتے جہاں جاتے شاگردان کے ساتھ تشریف لے جاتے باغ سرداراں اس وقت پوٹھوہاری شعراء اور مشاعروں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں مشاعروں کا انعقاد عمومی بات تھی۔ سائیں ترنم سے مشاعرہ سناتے تھے اصیل مرغ اور بٹیر بازی کے شوقین تھے سی حرفی، چار بیتے یعنی چوبرگہ جو کہ آج بھی پوٹھوہار کی واحد صنفِ سخن ہے جس میں شعراء پوٹھوہار ید طولی رکھتے ہیں

گوکہ آپ نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی فرمائی لیکن چوبرگہ کو ہی پسند فرمایا گو کہ پنجابی اور ہندکو مورخین نے سائیں کے چار بیتے چومصرعہ کو یا ہندکو کہا ہے یا ٹھیٹھ پنجابی جس میں پوٹھوہار کے ایک مخصوص گروہ نے بھی سائیں کی علمی و ادبی حیثیت سے انکار کرتے ہوئے ان کی خدمات سے انحراف کیا ہے لیکن اس بات کا ثبوت آج کی پوٹھوہاری ادب کی عوامی محفلیں ہیں جن میں سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ کے مکتبہ فکر کو ہی پذیرائی حاصل ہے۔ چونکہ یہ ایک تاریخی پسِ منظر کا حامل معاملہ ہے اس پر میری کتاب ادبی تاریخ پوٹھوہار میں تفصیل سے گفتگو کروں گا انشاء اللہ۔سائیں شاگردان کے جھرمٹ میں بازار گھومنے جاتے عموماً ”راجہ بزار” نامی شخص کی دکان کے تھڑے پر تشریف فرما ہوتے (یہ وہی راجہ بزار نامی شخص ہے جس کے نام پر آج راجہ بازار کا نام ہے) یہ دوکان کمپنی باغ جسے اب لیاقت باغ کہتے ہیں کے مغربی حصے کی طرف ہوتی تھی۔رئیس آف راولپنڈی چوہدری مولا داد چوہان سے روایت ہے کہ 1919ء کے لاہور مشاعرہ میں راولپنڈی (پوٹھوہار) کے شعراء کرام کو دعوت دی گئی جس کے لیے سائیں احمد علی ایرانی پشوری ؒ کی قیادت میں شاگردان سائیں اور دیگر شعراء نے شرکت کی

جس میں مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ سائیں کے فارسی تراکیب میں طرح مصرعہ ”ہسدی اے” پر ترنم میں پڑھے گئے چوبرگے سن کر آپ ؒ کو بے ساختہ پنجابی (پوٹھوہاری) کا غالب کہا۔آپ 1930ء میں پشاور واپس چلے گئے جہاں درویشی اور مجذوبی کی کیفیت میں 21 اپریل 1937ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور یوں تین مختلف زبانوں اور خطوں کی پہچان بننے والی شخصیت اپنے لاکھوں سوگواران کو اکیلا چھوڑ کر سفر آخرت کی طرف چل دی آپ کا مزار شریف کاکشال قبرستان میدان شیخ حبیب بالمقابل لکھا دروازہ جانب مغرب نزد جامع مسجد مرجع خلائق ہے۔آپ محسنِ پوٹھوہار‘ ہندکو اور پنجاب ہیں آپ کا کلام آج بھی پوٹھوہار میں عوام و خواص میں اور ہندکو پنجاب میں لوگوں کے اذہان و قلوب پر نقش ہے۔آپ کو جو شہرہ اور عزت پوٹھوہار میں ملی اس کی نظیر نہیں ملتی اور جو آپؒ نے پوٹھوہاری ادب کو اپنا حوالہ دیا وہ بھی بے نظیر ہے۔ہم نے سائیں احمد علی رح ایرانی پشوری ؒپوٹھوہاری کو انکی زندگی میں خراج تحسین پیش کیا اور آج بھی ہم اہلیانِ پوٹھوہار انکی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں