110

اساتذہ متوجہ ہوں /ظہیر احمد چوہدری

درس و تدریس کو پیغمبری عمل کہا جاتا ہے ۔جس طرح ایک پیغمبر سچ کی تبلیغ کرتا ہے اس طرح ایک استاد بھی معاشرے سے ظلم و ناانصافی اور جہالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے علم کی شمع روشن کرتا ہے ۔ استاد بھی پیغمبر کی طرح معاشرے میں تبدیلی کے لیے تگ و دو کرتا ہے ۔کسی معاشرے میں اگر حقیقی تبدیلی لانی ہو تو استاد ہی کرسکتا ہے ۔نبی کریم ﷺ کی زندگی کا واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں مشرکین کو فدیہ کے بدلہ میں چھوڑا جائے ۔سوال کیا گیا کہ جو لوگ فدیہ کی سکت نہیں رکھتے وہ کیسے آزادی حاصل کریں تو فرمایا کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو پڑھا دیں تو ان کو آزاد کر دیا جائے گا۔استاد اگر چاہے تو قوم کو اچھائی کی طرف لے جائے اور چاہے تو نفرت کے بیج بو دے ۔استاد امن کا درس بھی دے سکتا ہے اور نئی نسل کو جنگ و جدل کے بے مہار سفر پہ بھی گامزن کر سکتا ہے ۔استاد مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے جو طالب علموں کی تعلیم و تدریس کے علاوہ ان کی اخلاقی و سماجی تربیت کی آبیاری کا ضامن ہوتا ہے ۔نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’ نیک اور تعلیم یافتہ اولاد ایک بہترین صدقہ جاریہ ہے ‘‘
دور جدید میں ایک استادکی حالت انتہائی دل شکن دکھائی دیتی ہے ۔اس کی وجہ ہمارے معاشرے کی تنزلی اور چکا چوند کے ساتھ ساتھ استاد نے محض نصاب کو مکمل کرنا ہی مقصد سمجھ لیا ہے ۔دور حاضر کے استاد نے نہ کبھی اپنا محاسبہ کیا اور نہ ہی اپنی قدر ومنزلت پہچاننے کی کوشش کی ۔آج کے بیشتر اساتذہ نے انبیاء کرام ؑ کے اس پیشہ کو داغدار کر دیا ہے ۔آج کا استاد اپنے پیشے کے تقدس کی کسی بھی جگہ حفاظت نہیں کر پا رہا ۔ٹویشن کے نام پر جگہ جگہ سینٹر قائم ہوئے اور کئی اساتذہ نے بچوں کو ٹیوشن کی ترغیب دینا شروع کر دی ۔یہ کون سے اساتذہ ہیں جو رات گئے اپنے گھروں میں ٹیوشن کا دھندہ چلاتے ہیں ؟ایسے اساتذہ کا مقصد صرف دولت اکٹھی کرنا ہے ورنہ بچے کو پرائیویٹ ٹیوشن کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ اساتذہ نے اپنے فرائض کو بخوبی اور منصفانہ طور پہ نبھانا چھوڑ دیا ہے اور وہ دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر ان بچوں کو سیڑھی بنا کر دنیاوی دولت اور شہرت کی بلندیوں پہ کمند ڈالنا چاہتے ہیں ۔یہ کمسن بچے ہمارے صحتمند مستقبل کی ضمانت ہیں اگر ان کی جائزو تعمیری راہبری و ترجمانی وقت پر نہ ہوئی تو ہمیں ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پائے گا۔آج کا استاد یہی رونا روتا ہے کہ معاشرے میں اس کی عزت نہیں لیکن اگر غور کیا جائے تو ذلت اور رسوائی کا ذمہ دار استاد خود ہے ۔مضامین پہ استاد کو مکمل گرفت نہیں ہوتی اور بول چال کا کوئی ڈھنگ نہیں ۔جن کا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا مقصد روزی کمانا ہے ۔ نجی سکولوں میں میٹرک ، ایف اے پاس طالب علم امتحانات کے فوراً بعد سکول ٹیچر لگ جاتے ہیں ۔ایسے اساتذہ کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اساتذہ کا احترام کیسے کیا جاتاہے تو وہ بچوں کو کیا سکھا سکتے ہیں ۔ایک استا د صرف دو طریقوں سے کلاس کو کنٹرول کر سکتا ہے ، ایک اپنی شخصیت کے رعب سے اور دوسرا اپنی تعلیمی قابلیت سے ۔اگر ایک استاد کے پاس ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ ہو تو وہ طلباء سے اپنی عزت کیسے کروا سکتا ہے ؟ایک استاد معاشرے میں قابل عزت مقام کیسے حاصل کرسکتا ہے اس کے لیے میری کچھ تجاویز ہیں جو کہ صرف میری رائے ہے ۔سب سے پہلے ہم کلاس میں اینٹر ہوتے ہیں ۔ہر استاد یہ چاہتا ہے کہ جب وہ کلاس میں داخل ہو تو سٹوڈنٹ اس کی تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور سلام کریں ۔لیکن اسلام کا یہ اصول ہے کہ استاد بچوں کو سلام کرے اور انہیں کلاس میں ویلکم کرے ۔نبی ﷺ کی سنت ہے کہ بچوں کو سلام کریں کیونکہ آپ استاد ہیں اور آپ نے ڈیلیور کرنا ہے ۔کلاس اجتماعی ہوتی ہے اور انفرادی آدمی نے اجتماعیت کو سلام کرنا ہے ۔استاد کے احترام میں پوری کلاس کا کھڑا ہو جانا شدید ناپسندیدہ عمل ہے ۔اس بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ جو شخص اپنے لیے لوگوں کا کھڑے رہنا پسند کرے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ‘‘ جامع ترمذی حدیث نمبر 2755 ۔آج آپ بچوں کو ڈیلیور کریں گے تو کل بچے پریکٹیکل لائف میں بے مہار اور بداخلاق نہیں ہونگے ۔بچوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آئیں ، مار پیٹ سے ناقص علم حاصل ہوتا ہے ،تشدد سے دین نہیں سکھایا گیا تو دنیا کیسے سکھائی جا سکتی ہے ۔بچوں کے لیے آسانی اور شوق پیدا کریں ، بچوں کو بیزار نہ کریں ۔اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو پھر بھی شفقت اور نرمی سے پیش آئیں ، کیونکہ غلطی کے وقت ہی آپ کی برداشت کا ٹیسٹ ہے ، اگر بچہ کلاس کے دوران ھنس پڑے ، شرارت کرے ، سبق سمجھ نہ آئے تو استاد کی سزا بدلے اور انتقام پر مبنی نہ ہو بلکہ اصلاح کے لیے سزا دیں ۔بچوں کے انفرادی فرق کا لحاظ رکھیں ، استاد کو بچوں کے مالی حالات ، بچے کی ذہنیت ، بچے کی فزیکل حالت کا بخوبی علم ہونا چاہیے اور اس کو ٹریٹ کرتے ہوئے یہ بات استاد کے ذہن میں ہونی چاہیے ۔استاد کو چاہیے کہ کوشش کرے بچے کو زیادہ سے زیادہ اکاموڈیٹ کرے۔سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ درس وتدریس کے لیے موزوں اور بہترین طریقہ اپنایا جائے ، بچے نوٹ کرتے ہیں کہ ٹیچر کی باڈی لینگوئج کیسی ہے ، چہرے کے تاثرات کیا ہیں ، ہاتھ کیسے ہلاتا ہے ۔ بار بار بچوں کی توجہ اس طرف دلائیں کہ آج میں آپ کے سامنے بہت اہم پوائنٹ رکھنے والا ہوں، اور ہر دوسرے دن لیکچر کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ تاثر دیں کہ یہ امتحان میں ضرور آئے گا۔بچوں کو ڈائیگرام ، سلائیڈ شوز اور نقشہ سے سمجھائیں ۔سوال کرنے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور سمجھانے کے لیے واقعات اور مثالوں کا استعمال کریں ۔استاد کو خود باعمل ہونا چاہیے ، تمباکو نوشی اور دوسری معاشرتی برائیوں سے وہی استاد روک سکتا ہے جس کی اپنی جیب میں سگریٹ نہ ہوں ۔استانی کے سر پہ دوپٹا ہوگا تو وہ پردہ کے احکامات پہ لیکچر دے سکتی ہے ۔اساتذہ کو چاہیے کہ خود کو اپ ٹو ڈیٹ رکھیں، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ آج بھی استاد نے وہی ہاتھ سے بنی ہوئی سویٹر ، موٹر سائیکل پہ عجیب سے فلمی ڈائیلاگ ، موبائیل کی شوخ رنگ ٹون اور عجیب سا کور ، کھلی سینڈل میں جرابیں پہنی ہوتی ہیں ۔passion پہلے اور پروفیشن بعد میں رکھیں ،جب استاد کا پیشن ہائی ہوگا تو پھر ارد گرد ٹیوشن سینٹر کھمبیوں کی طرح نظر نہیں آئیں گے ۔بچہ اگر کسی سبجیکٹ میں کمزور ہے تو اس پہ ایکسٹرا ٹائم لگائیں تا کہ بچے کو ٹیوشن کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ پرنسپل صاحبان کو چاہیے کہ اساتذہ کو معقول سیلری دیں ۔یاد رکھیں اس شعبے میں دنیا نہیں کمائی جاسکتی صرف آخرت کمائی جاسکتی ہے ۔اگر آپ میں قناعت نہیں تو آپ سمجھ لیں کہ آپ اس شعبے کے لیے فٹ نہیں ہیں ۔گزشتہ دنوں پشاور سکول میں ایک ایسی قیامت گزری جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں ملتی ۔ملکی تاریخ کی دہشتگردی کا واقعہ قلم اور کتاب سے محبت کرنے والے سکول کے معصوم بچوں کے ساتھ پیش آیا جس کی جتنی زیادہ مذمت کی جائے کم ہے ۔کاش کوئی ان انسان دشمنوں کو سمجھا دے کہ لاشوں کی سیڑھی بنا کر جنت میں نہیں جایا جا سکتا۔ان معصوم بچوں کی روحیں باری تعالیٰ سے ضرور پوچھتی ہوں گی کہ آپ ان انسانیت دشمنوں کو نیست و نابود کیوں نہیں کردیتے ۔لیکن رحمت للعالمین ﷺ کا رب فرمائے گا کہ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ،آخر کار یہ لوٹ کر میرے پاس ہی آئیں گے۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں