داغ دہلوی نے کیا خوب کہا تھا کہ
’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں ’’داغ‘‘
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ اردو زبان نے ہی مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں کامیابی سے ہمکنار کیا اور تحریک آزادی میں بھی زیادہ تر اسی زبان کے زریعے شاعروں اور ادیبوں نے لوگوں کے اندر امید کی کرن کو اجاگر کیا اور امید کی نئی روشنی کے زریعے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو منور کیا ۔
میر درد نے کہا تھا کہ :
پھولے گا اس زبان میں بھی گلزار معرفت
ہاں میں زمین شعر میں یہ تخم بو گیا
ہر بڑے شاعر نے بھی اس زبان کا سہارا لینے کو بہتر سمجھا اور اردو زبان ایک بہت خوبصورت اور سادہ زبان ہے جو کہ دنیا کی دس بڑی زبانوں میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ زبان جو ہماری قومی زبان کہلاتی ہے ہم اس سے بہت دور ہوتے چلے جا رہے ہیں آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم انگریزی زبان کو اردو پر فوقیت دینے لگے ہیں ہمارا رجحان انگریزی میں زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے لوگ زیادہ سے زیادہ انگریزی زبان کے استعمال پر فخر محسوس کرنے لگے ہیں تقاضا وقت یہ ہے کہ ہم اپنی زبان بولنے میں فخر محسوس کریں بجائے اس کے کہ انگریزی کے پیچھے بھاگیں ہم لوگوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انگریزی زبان ہماری اپنی زبان نہیں بلکہ ایک بیگانی زبان ہے ہماری قومی زبان تو اردو ہے اور انسان کو جو عزت اپنے گھر میں ملتی ہے وہ عزت اس کو دوسروں کے گھروں میں نہیں مل سکتی اس لئے اس بات کو سمجھتے ہوئے ہمیں اردو زبان کو عیب خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ دوسری زبانوں کے سیکھنے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ توجہ اپنی زبان کی طرف دینی چاہیے تاکہ دوسروں کے سامنے اپنی زبان بولتے ہوئے ہم شرم سار نہ ہوں حکومت کو چاہیے کہ ہماری قومی زبان اردو کو عالمگیر درجہ دینے کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ ہمارا نوجوان طبقہ اردو زبان میں زیادہ دسترس حاصل کریں اس میں ہماری اپنی بھی عزت ہے اور ہمارے ملک کی بھی عزت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبان میں ہی ترقی کرنے کے مساوی مواقع تلاش کریں ۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
آتی ہے اردو زبان آتے آتے ۔{jcomments on}
181