عیدالاضحی سے تین روزقبل نماز عصرسے فارغ ہوئے تو ایک صاحب جامعہ فیضان عطار کے دفتر کے سامنے کھڑے کسی کا انتظار کررہے تھے پاس سے گزرتے ہوئے حسب روایت سلام و دعا کی تو گویا ہوئے جامعہ کے مہتم مفتی صاحب سے ملاقات کرنی ہے آپ میری مددکرسکتے ہیں۔
میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو مفتی صاحب کے پاس لیکر حاضر ہوگیا واپسی کے لیے اجازت چاہی لیکن انہوں نے چند منٹ رکنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ مفتی صاحب سے قربانی کے حوالہ سے درپیش مسئلہ پر بات چیت کرنی اور معلومات لینی ہیں۔ مفتی صاحب کے اسرار پر میں بھی رک گیا
تو بھائی صاحب نے بات کا آغاز کرتے ہوئے اپنا تعارف کرایا اور بولے کہ میرا نام فضل الدین ہے ساتھ والے پنڈ سے میرا تعلق ہے پیشہ کے حوالے کسان ہوں آباؤ اجداد کے ترکہ سے کافی جائیداد حصہ میں ملی والدین بھی زراعت کے پیشہ سے منسلک رہے اس لیے میرا بچپن ہی سے کھیتی باڑی اھوڑنا بچھونا رہا
شادی بیرون ملک سے ہونے کی وجہ سے چند سال دیار غیر میں گزارنے پڑ گئے وہاں میری ماہانہ اچھی خاصی تنخواہ تھی اچھا گزر بسر ہورہا تھا والدین کی وفات کے بعد زمین کو بنجر ہوتا دیکھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے گوروں کے دیس کو اپنا مستقبل بنانے کی بجائے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی۔
زمینداری پر ہی مکمل توجہ مرکوز کررکھی ۔پہلے پہل باہر کی محنت و مزدوری کے عوض ملنے والی کمائی کی نسبت یہاں زیادہ کما لیتا تھا علاقہ برادری اور دوست و احباب بھی عزت واحترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ زرعی آلات زاتی ہونے کی وجہ سے سال میں ربیع اور خریف کی دونوں فصلیں اگاتا ہوں سیزن کے آغاز میں ابھی فصل کھیتوں میں ہی ہوتی تھی کہ ایڈوانس خریداری کے لیے بکنگ شروع ہوجاتی۔ فلور ملز مالکان بھی ڈیرہ پر آکر سودا کرلیتے۔
سیل کے حوالہ سے کبھی بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا گزشتہ دو تین برس سے پٹرولیم مصنوعات ،کھادیں، بیج ،جڑی بوٹیاں کی تلفی کے لیےسپرے ادویات اور زرعی آلات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے سالانہ منافع میں خاصی کمی ہوتی رہی ۔چونکہ مجھے وطن سے پیار ہے میں یہاں رہ کر ہی خود کفیل اور معاشی طور پر مضبوط ہونے کا خواہش مند ہوں اس لیے کم منافع کی پرواہ کی اور نہ ہمت ہاری۔
لیکن امسال قدرے زیادہ محنت کا ارادہ کیا اپنے ساتھ بھائیوں کے رقبہ پر گندم کاشت کی ۔ تمام جمع پونجی فصل کی کاشت سے لیکر اس کے تیار ہونے تک خرچ کردی۔علاقہ پوٹھوہار میں جنوبی پنجاب کی نسبت گندم اپریل کے آخری ہفتہ میں تیارہوتی ہے ۔ماضی کی طرح اس سال بھی انتظار میں رہا کہ خریداری کے لیے مقامی لوگ اور مل ملکان رابطہ کریں گے ،دانہ کھیت کھلیانوں کے بعد گھرمیں لے آیا ۔
لیکن خریدار نہ پہنچا حکومت نے 40 کلو یعنی ایک من کا ریٹ 3900 روپے مقررکیا ہوا تھا فصل پر اٹھنے والے اخراجات پر تخمینہ لگایا اس لحاظ سے بھی ریٹ کم تھا چونکہ ٹریکٹر ٹرالی سے لیکر تمام زرعی آلات ذاتی زیر استعمال میں رہنے کی وجہ سے پھر بھی مذکورہ ریٹ میں مناسب حد تک منافع تھا لیکن حکومت نے اپنی نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرون ممالک سے گندم برآمد کرلی جس سے ملکی ضرورت کا کوٹہ پورا ہوگیا۔
حکومت سے مقامی سطح پر مزید خریداری نہ ہوسکی بیوپاریوں نے پنجاب کے بڑے زمینداروں سے انہتائی سستے داموں خرید لی جو علاقہ پوٹھوہار میں ٹرکوں کے زریعے2500روپے فی من گندم فروخت ہوتی رہی۔ادھر جب کہ میرے گھر کے تمام کمرے دانوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن خریدار نہیں ہے ،دانہ خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تو اس کو ٹھکانے لگانے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لیے مذید اخراجات کرنے پڑگئے۔
مفتی صاحب گھر دانوں سے بھرا پڑا ہے میں صاحب استطاعت ہوں قربانی مجھ پر واجب ہے لیکن جانوروں کی خریداری کے لیے میرے پاس نقدرقم موجود نہیں پوچھنا یہ ہے کیا میں ادھار کی رقم سے قربانی کی ادائیگی کرسکتا ہوں؟
یہ ایک فضل الدین کی کہانی نہیں ہے بلکہ زراعت کے پیشہ سے وابستہ پورے پاکستان کے لوگوں کی کہانی ہے سرکاری سطح پر خریداری نہ ہونے کی وجہ سے زمینداروں نے سستے داموں گندم فروخت کرکے وقتی طور پر اپنا نقصان کرلیا ادھر صوبائی حکومتوں نے روٹی سستی کرنے کا اعلان کرکے وقتی طور پر اپنی بھلے بھلے کروالی ہے لیکن ملکی معیشت پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہونگے ۔
جس طرح ملک میں تعلیمی نظام کے سدھارنے کے نام پر تجربے ہورہے ہیں یہی صورتحال زراعت کو بھی درپیش ہوچکی ہے محکمہ زراعت توسیع کی کارکردگی فائلوں اور دفتر تک محدود ہوکر رہ گئی دنیا کا پانچواں بڑازرعی ملک کہلانے والا اپنی ضروریات کو پوری کرنے میں قاصر ہوچکا ہے ‘
ہر نئی آنے والی حکومت گندم دالیں اور دیگر زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہوتی ہے زراعت سے منسلک کسان اس کو خیر آباد کہنے کو مجبور ہو رہے ہیں آہستہ آہستہ زرعی زمینوں کا بنجر ہونا ہمارا مقدر بنتا جارہے جو پوری قوم کے لیے لحمہ فکریہ ہے زمنیداروں کی حوصلہ افزائی اور سرسبز پاکستان کے لیے حکومت کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔