228

اخلاقی بگاڑ سے معاشرہ کی بنیادیں کھوکھلی

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ اب سیاسی اور معاشرتی بگاڑ نے اخلاقی بگاڑ کی شکل اختیار کر لی ہے جو انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اخلاقی بگاڑسے مراد یہ کہ جب حلال اور حرام مال کمانے اور کھانے کی تمیز ختم ہو جائے صرف اور صرف دولت حاصل ہو چاہے ذریعہ کوئی اختیار کرنا پڑے۔اسمگلنگ،ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ،غیر معیاری چیزیں بنانا اور ناقص تعمیرات یہ سب مال بنانے کے ذرائع ہیں ان کو کسی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔کھانے کی جعلی چیزیں تیار کرنا،ادویات جو کسی انسان کی زندگی کی ضمانت ہوتی ہیں وہ تک جعلی تیارکر لی ہیں،کوکنگ آئل آنتوں اور آلائشوں سے تیار کر لینا۔سیوریج کے پانی سے سبزیاں تیار کرنا یہ سب ہمارے اخلاقی بگاڑ کی وجہ سے ہوتا ہے بے حیائی کی جتنی شکلیں ہیں سب اخلاقی بگاڑ کے زمرے میں آتی ہیں بااثر لوگوں کے پاس دولت کے ساتھ ساتھ اقتدار بھی ہوتاہے جو قانون کی آنکھیں بند کرنے میں مدد دیتاہے ان کے ناجائز کا روباٖ ر تحفظ کے ذریعے پھلتے پھولتے ہیں اور ان کے نتیجے میں ان کی دولت میں اضافہ ہوتاہے۔جبکہ عام آدمی کے پاس ناجائز ذرائع کا استعمال تو در کنار قانون کے خوف سے اتنے دبے ہوئے ہیں کہ جائز کام بھی ڈرڈرکر کرنا پڑتا ہے اس لئے اخلاقی بگاڑ میں بڑے با اختیار لوگوں کا حصہ زیادہ ہوتاہے اخلاقی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ نا جائز دولت اور حرام کی کمائی ہے جس سے کئی نسلوں کی بربادی ہوتی ہے رشوت نے تو ہر قانون کو بے بس کر رکھاہے قانون کے لاچار ہونے سے اخلاقی بگاڑ میں بے پناہ اضافہ ہو رہاہے۔ نشہ جیسی لعنت اخلاقی بگاڑ کی وجوہات میں سے ایک ہے نشہ بنانے سے لے کر فروخت کرنے تک رشو ت کا استعمال ہوتا ہے کئی گھر تباہ ہوتے ہیں بالآخر نشہ سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔مڈل مین، ایجنٹ،ڈیلر بن کر متوسط طبقہ اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوتاہے‘ غریب کسانوں کی تیار فصلوں کو سستا فروخت کرکے پیسہ کماتاہے،غریب لوگوں کو بیرون ملک روزگار کے سہانے خواب دکھا کر پیسہ لوٹتاہے۔غریب لوگوں کی ز مینوں کو اونے پونے بڑ ے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرا کے کمیشن کماتا ہے یہ سب لوگ اخلاقی بگاڑ کے براہ راست ذمہ دارہیں ہمارے صاحبان اقتدار جو چند لاکھ ہیں ان کی سستی،کاہلی اور ذاتی مفاد کی خاطر کام کی وجہ سے پورے معاشرے کی بنیا دیں کھو کھلی ہو چکی ہیں آج فیصلہ کر لیں کہ بگاڑ کو صحیح کرنا ہے تو کوئی امر مانع نہیں۔اخلاقی بگاڑ فرد کے عمل سے شروع ہوتاہے معاشرتی تباہی معاشی نقصان کرتے ہوئے ا نسانیت کوختم کر دیتا ہے آج کل انسانیت سوز واقعات ہورہے ہیں ہمارا ملک انسانی بربادی کی تجربہ گاہ بناہ ہواہے جعلی دوائیاں ان پر آزمائی جارہی ہیں ملاوٹ شدہ،خوراک کھار ہے ہیں ایک دوسرے پر جسمانی‘ذہنی تشدد میں ہم بہت دور تک جا چکے ہیں حق تلفی کو جائز سمجھنے سے رہی سہی کسر نکل چکی ہے زیادہ لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگا کر کچھ لوگ عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اخلاقی بگاڑ نے ہماری کوئی پہچان نہیں چھوڑی اب عمل ظاہری شکل وصورت کا مظہر نہیں رہا اخلاقی بگاڑنے ہماری خاندانی روایات کو تہہ وبالا کر دیا ہے اب خاندانی لوگ بھی ایسے ایسے کام کر رہے ہیں جس سے ان کی پہچان تک نہیں رہی ہر ایک اخلاقی بگاڑ کی وجہ سے متاثر ہے دولت کے حصول کی دوڑنے اخلاقی بگاڑ میں اس قدر اضافہ کر دیاہے کہ ہمدردی، ایمانداری جائز منافع ہر چیز بے و قعت ہو چکی ہے میرے معمر استادجن کے پاس ہائی سکول کی کلاسز لیں انہوں نے آبائی زمین جو دوسری تحصیل میں تھی چند شاگردوں کو بتایا کہ فروخت کرنی ہے انہوں نے خریدا ر ڈھونڈا اور زمین فروخت کر دی استاد محترم کو مطلوبہ رقم دے کر ا س میں سے دوہزار کے حساب سے کمیشن بھی لے لیا کچھ عرصہ بعد انکشاف ہواکہ جتنی رقم فروخت کنندہ کودی گئی اس سے ایک گناہ زیادہ انہوں نے پاس رکھ لی اور ایمانداری دکھانے کے لئے استاد سے کمیشن علیحدہ سے وصول کیا اخلاقی بگاڑ نے استاد،شاگرد کے رشتہ کو بھی متاثر کر دیاہے۔اب بھی وقت ہے کہ اس اخلاقی بگاڑ کو درست کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اپنی عادات طور طریقے اخلاق نبویؑ کی صورت میں ڈھالیں اپنی اصلاح کریں اخلاقی بگاڑنے تباہی کے دہا نے پر تو پہنچاہی دیاہے کہیں غضب خداوندی کا باعث نہ بن جائے۔ تو بہ استعفارسے ہم قہر خداوندی سے محفوظ رہ سکتے ہیں مخلوق پر رحم کر کے ایک دوسرے کی مدد ونصرت سے ہمارا معاشرہ امن ہمدردی اور اعلیٰ اخلاق کا مظہر بن سکتاہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں