پاکستان مسلم لیگ ن اوراتحادی جماعتوں کی حکومت کو 100دن مکمل ہوگئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان 100دنوں میں موجودہ حکومت کی کارکردگی کیا رہی ہے روزاول سے چھائے غیر یقینی کے سائے آج بھی قائم ہیں یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رحجان اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے اتحادی حکومت کا اب تک 100دنوں میں بڑا کارنامہ آئی ایم ایف سے ڈیل قرار دیا جا رہا ہے کہ اس معائدے کے معیشت پر کچھ بہتر اثرات مرتب ہوں گے لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کو شکست کے بعد کارباری حلقوں میں ایک بار پھر غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اتحادی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی کمزور معیشت کا چیلنج درپیش تھا اسی چیلنج کو اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی آئی ایم ایف سے ہونے والی ڈیل کو ہی قرار دیا جا رہا ہے اس کے علاوہ موجودہ اتحادی حکومت نے اسلام آباد ایئر پورٹ تک میٹروبس ایکسٹیشن اور اسلام آباد میں بلیو اور گرین بس سروس کا آغاز کیا مہنگائی کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکومت نے کم آمدنی والے افراد کو دو ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان بھی 100روز میں کیا موجودہ حکومت نے کفایت شعاری مہم کا آغاز کیا جس میں وزراء اور کابینہ ارکان کے پٹرول الاونس میں کٹوتیاں کی گئی ہیں موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی 100دنوں میں اہم قانون سازی کی جس میں نیب قوانین میں ترامیم‘الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے قانون کو ختم کرنا اور بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ووٹنگ کا حق ختم کرناشامل ہیں موجودہ حکومت کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی100دنوں میں پالیسی سازی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی سابق وزیراعظم عمران خان نے ابتدائی 100دنوں میں وزیراعظم سٹیزن پورٹل کا اجراء کیا جس کے تحت شہریوں کی شکایات براہ راست وزیر اعظم آفس تک پہنچائی جاتی تھیں سابقہ حکومت کا یہ منصوبہ پونے چار سالہ اقتدار کا قابل ذکر اور عوام میں مقبول منصوبہ شمار کیا جاتا ہے احتساب کے نعرے کے ساتھ آنے والے وزیراعظم نے ایسٹ ریکوری یونٹ کی بنیاد رکھی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یونٹ کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکی ابتدائی 100دنوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کفایت شعاری مہم کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم آفس کی لگژری گاڑیوں اور گائے‘بھینس نیلام کرنے کا اعلان کرکے اس مہم کے ذریعے پندرہ کروڑ روپے سے زائد رقم قومی خزانے میں جمع کرائی گئی مگر بعد میں اس مہم کو برقرار نہ رکھ سکا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی100دنوں میں پارلیمنٹ غیر فعال رہی اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پارلیمانی کمیٹیوں کے درمیان اتفاق نہ ہو نے سے پارلیمانی کمیٹیاں کاروائی کا آغاز نہ کر سکی تھیں بنیادی طور پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین کا تنازعہ بنا رہا تھا موجودہ حکومت کی تحریک عدم اعتماد کامیابی کے علاوہ کوئی کامیابی نظر نہیں آئی روپے کی قدر مسلسل گر تی جا رہی ہے بجلی کا شارٹ فال بڑھ رہا ہے مہنگائی کی شرح میں بدترین اضافہ ہو رہا ہے موجودہ اتحادی حکومت کی واحد کامیابی یہی ہے کہ اپنے خلاف مقدمات کے شواہد ختم کرنا‘نیب کے قانون میں ترامیم کر لی گئی‘اپنے مفاد کیلئے سب کچھ کر لیا ہے ملک اور عوام کیلئے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کر سکتے ہیں عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے اور خصوصا
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں پر انکم ٹیکس بڑھا کر دگنا کر دیا گیا ہے اب زیادہ سے زیادہ یہ اپنے خلاف مقدمات کو خراب کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتاسب سے زیادہ غلط کام یہ ہوا کہ ایک چلتی ہوئی حکومت کو انہوں نے عدم استحکام کا شکار کیا اور اپنے پیسوں کے زور پر حکومت تبدیل کی بہتر یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو کے ملک کے مسائل خصوصا معاشی مسائل کو سمجھے اور ان مسائل کو حل کر سکے پاکستان تحریک انصاف کے ابتدائی 100دن ہنی مون پریڈ تھا جبکہ موجودہ حکومت کو انتہائی مشکلات کا سامنا درپیش ہے اور مشکل فیصلے لینا پڑھ رہے ہیں مثلاََ پٹرول کی قیمت تقریبا سو روپے فی لیٹر کا اضافہ کر کے غریب عوام پر پٹرول بم پھینکنے کے مترادف ہے کیونکہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے تمام اشیائے خوردونوش اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور بسوں کے کرائے بھی اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ عوام کیلئے سفر کرنا دشوار ہو جاتا ہے مشکل فیصلوں کا اثر غریب عوام پر پڑتا ہے موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کر لی ہے یہ ایک بریک تھرو ہے گورننس سابقہ حکومت سے نسبتا بہتر ہی نظر آرہی ہے لیکن ابھی کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا کیونکہ سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت دونوں نے 100دنوں میں کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا عمران خان کی حکومت کو اتنی معاشی مشکلات درپیش نہیں تھیں جتنی موجودہ حکومت کو درپیش ہیں موجودہ حکومت کو اتحادیوں کی طرف سے کوئی مشکلات نہیں موجودہ دور میں چیلنج معیشت ہے اور اس وقت جو سابق حکومت سرنگیں بچھا گئی تھی ان سے نکلنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے موجودہ حکومت کی ناکامی کی وجہ چیلنجز کے ساتھ ساتھ استعدارکار کی کمی ہے ملک کی ترقی کیلئے سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے انہوں نے سیاسی استحکام خود ختم کیاجس درخت پر بیٹھے وہی کاٹیں گے تو کام کیسے چلے گا ایک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری جنگ عمران خان کو شکست دینے کی اور اس میں ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے یہ عدم اعتماد نہیں بلکہ عدم استحکام تھا جو کچھ ان سے کروایا گیا اس سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے یہ حکومت اس قابل نہیں کہ کچھ کر سکے پہلے ایک ماہ تک تو کابینہ ہی نہیں بن رہی تھی کیونکہ بندر بانٹ کا مسئلہ تھا
