آئی ایم ایف نے ایک بار پھر قرض کے لیے نئی شرط عائد کر دی ہے، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے 140ارب کی انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا صدارتی آرڈیننس لانے کے لیے ضابطہ کی کاروائی مکمل کر لی ہے اور اس حوالے سے مزید پھرتی دکھاتے ہوئے کابینہ نے سمری بھی منظور کر لی ہے، وفاقی حکومت نے انکم ٹیکس میں چھوٹ ختم کرنے کے متعلق 24مارچ سے قبل آئی ایم ایف کو آگاہ کرنا ہے۔ حکومت سر جھکا کر کسی چوں چراں کے بغیر آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کر رہی ہے اور حکومت پاکستان کی اتنی تابعداری کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے بھی حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ ایک کے بعد ایک شرط پیش کرتے جا رہے ہیں جنہیں ہماری حکومت من و عن تسلیم کر رہی ہے۔ حکومت کی اس تابعدارانہ پالیسی کی وجہ سے عوام پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، نئے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کاروباری طبقے کو ستایا جا رہا ہے جس سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور درآمدات بڑھ رہی ہیں، برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے، جس سے معیشت تباہ ہو چکی ہے۔
آئی ایم ایف ہر بار حکومت کو نئی شرائط کے ساتھ قرض دیتا ہے، کبھی نئے ٹیکس لگانے کی شرط، کبھی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی شرط، کبھی ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط اور کبھی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی شرط لگا کر قرضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت ان تما م شرائط کو کسی تاویل کے بغیر پورا کر رہی ہے اور پھر تمام خرابیوں کی وجہ گزشتہ حکومتوں کو قرار دیتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اگر کرپشن زیادہ تھی تو پھر یہ سارا نظام کیسے درست چل رہا تھا؟ چلیں مان لیا کہ بالکل درست تو نہیں تھا لیکن آج کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔ موجودہ حکومت نے تو آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر سمجھوتا کرنے کا پختہ عزم کر رکھا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جتنا انہوں نے آئی ایم ایف میں جانے کی مخالفت کی تھی اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کو برا سمجھا تھا یہ اس سے کہیں زیادہ اس کے سامنے بچھتے جا رہے ہیں اور اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ ملک کو آئی ایم کے ہی حوالے کر دیں گے۔ کیونکہ انہوں نے بھی تو ان کی ہر شرط کو من و عن تسلیم کر لینا ہے تو کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ حکومت کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ وہ برہ راست ہر ایک شرط کو ملک پر نافذ کرتے رہیں۔
یہ ادارہ تمام ممالک کو قرض فراہم کرتا ہے جو ان ممالک کا بیرونی قرضہ ہوتا ہے۔ یہ قرضہ چند شرائط کے ساتھ دیا جاتا ہے ان شرائط کی بناپر اکثر ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے بگڑ جاتی ہے۔ جب سے اس ادارے پر امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کا اثر رسوخ بڑھا ہے تب سے اس ادارے نے غریب ممالک کا جینا حرام کر دیا ہے۔ یہ ادارہ ان ممالک پر ایسی ایسی شرائط عائد کر تا ہے جو ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی خودمختاری کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ پھر یہ غریب ممالک آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد اس کے چنگل سے نکل نہیں پاتے کیونکہ وہ سود اور پھر سود در سود کے جال میں بری طرح پھنس جاتے ہیں اور آئی ایم ایف ان ممالک کو اتنا ہی قرض فراہم کرتا ہے جس سے وہ بمشکل بیرونی قرضوں پر لگنے والا سود ہی ادا کر پاتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے دیگر اخراجات کے لیے پھر قرض لینا پڑتا ہے یوں غریب ممالک آئی ایم ایف اور اس کے پس پردہ امریکہ وغیرہ کے زیر اثر رہتے ہیں اور ان کی ہر شرط ماننے پر مجبور
ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی غلطی کی وہ معاشی طورپر تباہ ہو گئے۔
آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے ممالک پر بیرونی سرمایہ کار بھی اعتبار نہیں کرتے اور وہ سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایسے ممالک کی بدنامی بھی ہوتی ہے اور ان ممالک کی معیشت بھی نہایت خستہ حال ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان ممالک کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور پھر اس کی شرائط مان کر اس سے قرض وصول کرنا ہوتا ہے۔ یوں یہ ممالک آئی ایم ایف کی دلدل میں پھنستے ہیں چلے جاتے ہیں۔ جس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کی ہر شرط پوری نہ کرے بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ جن ممالک سے ہماری دیرینہ دوستی ہے ان سے تعلقات کی بہتری کی طرف توجہ دی جائے اور ان سے قرض لینے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ساتھ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی جائے۔ آئی ایم ایف کی بجائے دوست ممالک سے قرض لینے کا فائدہ یہ ہے کہ ان ممالک کی اتنی کڑی شرائط نہیں ہوتیں کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی بہتری کے لیے زیادہ سے زیادہ صنعتیں قائم کی جائیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے ہو اور معیشت مضبوط ہو جائے۔ حکومت اگر پچاس لاکھ گھروں پر توجہ دینے کی بجائے پانچ سو فیکٹریاں اور کارخانے قائم کر لے تو یہ عوام کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو گا کیوں کہ ایک طرف بہت سے بیروزگار لوگوں کو روزگار ملے گا تو دوسری طرف ملکی معاشی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔
219